طارق ,تاریخ اسلام کی وہ عظیم و جلیل ہستی جس کا نام لینے سے آج بھی دل کا لہو گرم ہوجاتا ہے اورر سینے میں جراتیں مچلنے لگتیں ہیں.فاتح اندلس موسی بن نضیر والی افریقہ کا نامور غلام طارق ابن زیاد دانائے راز حکیم الامت حضرت علامہ اقبال نے ایک عجیب وغریب واقعہ نظم فرمایا.
“طارق چوں بر کنارہ اندلس سفینہ سوخت”
.ساری فوج انگشت بدنداں ہے.دل سینوں میں لرز اٹھے اور عقل کانپنے لگی
“گفتند کارتؤزنگاہ خروخطاست”
عقل کی کمزوریاں سہارہ ڈھوڈنے لگیں خرد کی تنگی دامانی میں وسعت ہی کیا تھی..چیخ اٹھی
“دوریم ازسواد وطن باز چوں رسیم”
” ترک سبب زردئے شریعت کجا رواست”
لیکن وہ شیر جس کی آنکھیں خدا کو اور اس کی لا محدود قوتوں کو دیکھ سکتیں تھیں- کچھ اور نہیں سوچ سکا ..مرد مومن حملہ ترکانہ سے کم کسی شی پر راضی نہیں..شہیس کی موت یا فاتح و غازی کی زندگی .ناکاموں کا خیال ,اس کے دل میں پیدا نہیں ہو سکتا – سواد وطن سے دوری کاتصور قریب نہیں آتا فرصت کہ واپسی سے متعلق سوچتا.شہادت یا فتح اس کے علاوہ نظر کہیں پہنچتی ہی نہیں. طارق نشہ جرائت میں جھوم اٹھتا ہے اور
“خندید و دست خویش بہ شمشیر بردد گفت”
“ہر ملک,ملک ماست کہ ملک خدا ماست”
پھر کون نہیں جانتا کہ طارق کی شمشیر خاراشگاف میاں سے تڑپتی تکبیرں گونجیں ..دریاؤں کے دل دہلے ,پہاڑوں کی چوٹیاں کانپیں اور دنیا
کی آنکھیوں نے دیکھا کہ جس سواد ملک پر کشتیوں کے شعلے بلند ہوئے تھے .ٹھیک اسی سر زمین پر اسلام کا جھنڈا لہرانے لگا….اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر و للہ الحمد
صرف یہی ایک واقعہ نہیں .مسلمان کی پوری چودہ سالہ تاریخ شاہد ہےکہ وہ ہمیشہ بے سرو سامانی میں نکلا.اللہ کی عظمت و جبروت نے ہمیشہ اس کی دستگیری فرمائی اور صاحب ساز و سامان بنا دیا
ہر چند کہ مرد مومن بھی اللہ کا بندہ ہے.مگر مولا صفات
“ہاتھ ہے اللہ کا,بندۃ مؤمن کا ہا تھ ”
“غالب و کار آفریں کار کشاکار ساز”
.بے مائگی اور بے سرد سامانی کبھی مؤمن کے پائے ثبات میں لغزش نہیں پیدا کر سکتی
“کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ !’
“مؤمن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی”
…..مؤمن کے دل کا خلوص اللہ پر ایقان بے پناہ عزم و حوصلہ مستحکم وغیرہ متزلزل ارادہ ہی اس کا سارا سازو سامان ہے
…..طارق —————– رئیس احمد جعفری کی پیش کش ہے
رئیس احمد جعفری———— وہ نوجوان ادیب جو سیرت محمد علی لے کر منصۃ شہود پر آتا ہے. اور قوم کے سامنے رئیس الاحرار مولانا محمند علی کے جواہر پارے پیش کرتا ہے ..یکا یک زمانے کے ہاتھوں مجبور ہو کر ناول نگار بن جاتا ہے .اور اس صنف ادب میں بھی اپنا ایک لا زوال مقام پیدا کرتا ہے .خدا کا شکر ہے کہ اب ہمارے محبوب ناول نگار نے اپنے قلم کو ان ہفوات سے موڑ کر تاریخی ناولوں کیطرف متوجہ کیا ہے.یہ ایک صحت مند اورخوشگوار تبدیلی ہے .جس سے ہم بجا طور پر بڑی اچھی تمنائیں وابستہ کر سکتے ہیں…طارق کی پیش کش کے بعد اسی طرح انشاءاللہ تاریخ اسلام کے وہ عظیم الشان اور فیصلہ کن واقعات پیش کیے جائیں گے..جنہوں نے قوموں کی قسمتیں بدل دیں.اور تایخ کے دھارے کا رخ پھیر دیا…ہم امید کرتے ہیں کہ ان کتابوں کے مطلعہ سے نئی پاکستانی نسل میں ایک صحت مند اور مضبوط عزم و ارادہ پیدا ہو گا. انشاءاللہ