skip to Main Content
سیرت محمد علی(سید رئیس احمد جعفری)

سیرت محمد علی(سید رئیس احمد جعفری)


نگاہ اولین

شہید ملت مولانا محمد علی مرحوم کے سوانح حیات کا ایک مختصر خاکہ ناظرین کی خدمت میں پیش ہے۔
انسان کی زندگی کائنات کا سب سے پوشیدہ راز ہے اور انسانی شخصیت کو سمجھنا اور سمجھ کر دوسروں کو سمجھانا اسی نسبت سے دشوار ،پھر جب یہ شخصیت محمد علی جیسی جامع حیثیات ہو تو اس دشواری کا کیا ٹھکانہ ہے۔
محمد علی کی زندگی کا بیان دراصل ایک قوم اور ملت کے حال اور استقبال کی تفسیر کرنا ہے کہ محمد علی اسلامی ملت اور ہندی قوم کا قائد اور نمائندہ بھی، ایک ایک بیدار ہونے والے ملک ایک خوابِ گراں سے جاگنے والی ملت ساری بے تابی اور سارا فورِ شوق ساری در گرمی، ساری خود فراموشی، ایک پیکر خاکی میں جلوہ گر تھی ۔ یہی نہیں اس کی ذات آغاز کار کی تمام تکلیفوں اور پریشانیوں بے ترتیبیوں اور ہنگاموں کو مظہر بھی تھیں۔ نا مساعد حالات سے جنگ پیہم بے سرو سانی، بے یاری و مدد گاری، ہمراہوں کی خفتہ پائی، ہمنوائوں کی کج فہمی غرض کون سی چوٹ تھی جس نے اس کی روح کے گوشہ گوشہ کو گھایل نہ کر دیا ہو ہماری قومی و ملی زندگی کی اجمالی تصویر تھا۔ ان صفحات میں اس تصویر کا ایک عکس ضررو ہے۔ مگر بس ایک خاکہ دھندلا سا اور نا مکمل اس کی تکمیل کا پورا حق بیسوں صدی میں اسلام اور ہندوستان کی سر گزشت لکھنے والا مئورخ ادا کر سکے تو کر سکے۔ مگر اس نمائندہ اور قائد کے سینے میں ایک آگ تھی جس کی چنگاری سے خفتہ ملتیں بیدار اور مردہ قومیں زندہ ہو جاتی ہیں ۔ وہ آگ جو کبھی باطل دوستوں کے لئے بہت نا گوار شعلہ نوائی کی شکل میں ظاہر ہوتی کبھی آنسو بن کے اس کی سر شار محبت آنکھوں سے ڈھلتئ تھی ۔ اپنے سوز کے اس دفینہ آتشیں سے وہ اپنی قوم کے نوجوانوں کے سینے میں کچھ چنگاریاں منتقل کر گیا ہے ، جو اس کے اس جوانوں کی تعبیر کی ضمانت ہے جنہیں نادانن سمجھتے ہیں کہ اس کے ساتھ ختم ہو گئے۔ اس سیرت کے مرتب مولوی رئیس احمد جعفری صاحب انہیں نوجوانوں میں ہیں جنہیں اپنے موضوع سے محبت ہے، عشق ہے، اور اس لئے کہ کیا عجب کہ یہ اس کیمیاء اثر چنگاری کو دوسرے سینوں تک منتقل کرنے میں کامیاب ہوں۔ اگر یہ ہو ہم اپنی سعی کو مشکور سمجھیں گے

Back To Top