skip to Main Content
رئیس احمد جعفری شخصیت اور فن

رئیس احمد جعفری شخصیت اور فن


(سید رئیس احمد جعفری شخصیت اور فن ( سید رئیس احمد جعفری

“رئیس احمد جعفری مرحوم”

رئیس امروہوی

 “موت ہے گو حیات کا مقسوم                      آہ صد آہ – جعفری مرحوم  “

”   وہ رئیس احمد    سخن    آرا                       خادم قوم – قوم کا مخدوم   “

“جس کے نکتے عجائب منشور                   جس کی باتیں ظرافت منظوم  “

“وہ علوم ادب   کا    پیکر   فن                     وہ فنون سخن میں جان علوم “

“اسکی انشاء میں شعر کا اعجاز                      نثر میں اسکی نظم کا مفہوم   “

“کتنا    پرکار      کس قدر   سادہ                  کس قدر شوخ? کس قدر معصوم “

”    وہ ادیب    مفکر   و    نقاد                         اس کے اوصاف کی جہان میں دھوم “

” مل سکے گا کبھی بدل اس کا                        یہ کسی کو  رئیس کیا معلوم  “

“نثر و نظم و ادب کی وادی میں                       میرا ہم نام میرا ہم مقسوم  “

“سو گواران غم کو بتلا دے                                 دل مغموم اے دل مغموم    “

“زندہ جادوان اردو ہے                    دل کی دنیا میں جعفری مرحوم”

——————————————————————————————————————————————————————————————————–

“قطعہءتاریخ وفات”

رئیس امروہوی

“رئیس      احمد      کی       وفات”

“وفات   سخن   ہائے    نکتہ  وری”

“مری طرح سے کچھ کتابیں ریئس”

“ہیں ,ارث   رئیس   احمد  جعفری”

——————————————————————————————————————————————————————————————————–

چند یادیں

مجید نظامی

رئیس احمد جعفری مرحوم کو بطور صحافی,مدیر,ادیب,اور مصنف ہر کوئی جانتا تھا ,میں بھی ان کے نام اور کام سے تو واقف تھا …لیکن نیاز حاصل نہیں کر سکا تھا.سن 1962کی فروری میں جب جب سے بھائی مرحوم بزرگوار حمید نظامی کے عارضہءدل کے ہاتھوں اچانک گرفتاری اور انتقال پر لندن سے واپسی پر “نوائےوقت”کی باگ دور سنبھالنی پڑی.تو جن بزرگ دوستوں نے عمی قلمی معاونت و تعاون کی پیشکش فرمائی ان میں مرحوم رئیس احمد جعفری بھی شامل تھے

مولانا محمد علی مرحوم کے جانثارساتھی اور “خلافت”کے سابق مدیر”سیرت محمد علی”کے مصنف جناب رئیس احمد جعفری سے میری ملاقات سن 1964میں ہوئی..مادر ملت نے اپوزیشن کے مجبور کرنے پر قوم کی طرف سے صدر ایوب خاں کو چیلنج کرنا قبول کر لیا تھا .سر کاری مولوی علمائے کرام اور مشائخ حضرات ان کے عورت ہونے تابڑ توڑ حملے کر رھے تھے ..”نوائے وقت” کو میں نے عوام کے حقوق اور جمہوریت کی بحالی کے لیے مادرملت کے لیے وقف کر دیا تھاخبریں تو ہم صدر ایوب خاں کی بھی چھاپ رہے تھے.لیکن ادارتی پالیسی ان کے خلاف تھی

میں ابھبی سوچ ہی رہا تھا کہ مادر ملت کے خاتوں امیدوار ہونے کے حق میں کسی سے مضمون لکھنے کی فرمائش کروں کہ کوئٹہ سے ریئس احمد مرحوم کا مدلل اس موضوع پر موصول ہو گیا……یہ مضمون بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوا..اس کے بعد ماد ملت  بطور خاتون امید وار صدارت کے حق میں مضامین کی چھڑی لگ گئی…جعفری صاحب ان دنوں نیم سرکاری ملازم تھے…اور ادرہ ثقافت اسلامیہ کے لیے کام کر رھے تھے…آپ کی صحت بھی کمزور تھی اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے عارضہ دل میں مبتلا ہو چکے تھے ..لیکن آپ نے اپنی صحت اور ذریعہ آمدنی کی ہرواہ کیے بغیر مادر ملت کے حق میں ایک معرکۃالآرامضمون لکھ دیا ..اس مضمون کی اشاعت کے بعد وہ کوئٹہ سے تشریف آوری کے بعد دفتر نوائے وقت میں بھی تشریف لائے ..وہ اوورکوٹ اور گرم ٹوپی میں ملبوس تھے,…افسوس آتس بوڑھا ہو چکا تھا..بہت دیر تک صدارتی انتخابی مہم پر گفتگو فرماتے رہے

یہ سن 1967ءکی بات ہے .حضرت آغا شورش کاشمیری کا فون آیا کہ رئیس احمد جعفری اور رشیداخترندوی کے ہپمراہ دفتر نوائے وقت آ رھے ہیں…چائے تیار رکھوں..کوئی دس منٹ بعد وہ آ دھمکے ..چائے تیا رتھی.جعفری صاحب تو خاموش ہی رھے ندوی صاحب نے فرمایا کہ وہ ایک ادارہ معارف ملیہ کی بنیاد رکھ رھے ہیں..اشاعتی ادارہ ہو گا کام وہ اور جعفری صاحب کریں گے..آغا صاحب کے ساتھ میں بھی اس کا بانی رکن بن جاؤں.ادارے کے سابق صدر چیف جسٹس منیر ہوں گے.میں نے بہت معذرت کی کہ یہ رکنیت میرے بس کا روگ نہیں,,..میں اصولی طور پر بھی اس کے خلاف ہوں ,دوسرے آپ حکومت سے کوئی مفاد بھی ہماری وجہ سے حاصل نہیں کر سکیں گے..اس کے باوجود معلوم نہیں کیوں ندوی صاحب کا اصرار بڑھتا گیا,,,…جعفری صاحب بدستور خاموش تھے

آغا صاحب  چونکہ خود حامی بھر چکے تھے اس لیے مجھے مجبور کرنے پر مجبور ہو گئے………..جسٹس منیر صاحب کے ساتھ وقت پہلے ہی طے ہو چکا تھا ..ہم وفد کی صورت میں پندرہ,بیس منٹ بعد ان کے بنگلے میں بیٹھے تھے …میں نے دلچسپ بات یہ نوٹ کی کہ جعفری صاحب وہاں بھی خاموش بیٹھے رہے ..واپسی پر میں راستے میں پوچھا محمد علی اکیڈمی کے ساتھ ساتھ آپ اس اشاعتی ادارے کے لیے وقت نکال سکیں گے? تو جعفری صاحب نے اس کا جواب بھی صرف مسکراہٹ میں دیا

اس کے بعد حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ چند ماہ بعد شورش صاحب کو جیل جان پڑا.ہم نے اخبارات میں پڑھا کہ ادراہ معارف ملیہ کے سربراہ پیر مآب دیول شریف بن گئے ہیں .میں اس کا تراشہ آغا صاحب کو کو جیل میں بھجوایا .انھوں نے فورا ایک خط ندوی صاحب کے نام بھجوا دیا ..کہ بھائی اب ہمارا ادارہ معارف ملیہ کے ساتھ چلنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو گیا ہے ..وہ خط میں نے آپ کے ساتھ ندوی صاحب کو بھجوا دیا اس طرح یہ باب ختم ہوا…پھر ایک صبح کو اچانک فون آیا کہ جعفری صاحب عارضہ قلب کی وجہ سے انتقال فر ما گئے ہیں اور ان کی میت ان کی بیگم صاحبہ فلاں فلیٹ سے کراچی جا رہی ہیں ..ائیر پورٹ پر ان کی غم سے نڈھال بیوہ کے پاس چند دوست احباب اورعزیز موجود تھے ..جعفری صاحب کا تو ہمیں آخری دیدار نصیب نہ ہوا….

“””” حق مغفرت کرے عجب آرزو مرد تھا “”””

جعفری صاحب مولانا شوکت علی مرحوم کے وفادار اور جانثار ساتھی تھے..ان کے اخبار”خلافت”کے مدیر بھی رہے بعد میں بھی انھوں نے قلم اس مرد مجاہد کے لیے وقف کر دیا ” سیرت مححمد علی ” لکھنے کے بعد وہ مرحوم پر “اتھارٹی” بن گئے …آپ ایک بلند پایہ ادیب,علم فاضل, مصنف , مؤلف, مترجم, اخبار نویس,اور ناول نویس تھے..چونکہ “انجمن ستائش باہمی” یعنی “ترقی پسند مصنفین” میں سے تھے…اسلام کے نام لیوا تھے.اس لیے “رجعت پسند قلمکار” رہے.

———————————————————————————————————————————————————————————————————–

ایک انسان دوست ادیب

 حکیم محمد سعید

گزشتہ سال مولانا ریس احمد جعفری یکا یک اس دنیا سے منہ موڑ کر اپنے تمام دوستوں اور مداحو ں کو داغ مفارقت دے گئے …ان کی اچانک جدائی ایک ایسا المیہ تھی کہ جو دوست ان کی بیماری سے واقف تھے وہ بھی ششدر رہ گئے ……… انتقال سے چند روز پہلے جعفری صاحب کراچی میں تھے ..لاہور جانے سے ایک ایک دن پہلے مجھ سے ملنے تشریف لائے ..حسب معمول خوش و خرم تھے ..کافی دیر تک باتیں ہوتی رہیں ..باتیں زیادہ تر حالات حاضرہ خصوصا اپنے ملک اور اپنی قوم کے متعلق تھیں..میں نے کہا کہ اجتماعی زندگی میں اصلاح کے لیے اخلاقی اصلاح ضروری ہے ..اخلاقی اقدار سے روگردانی کا نتیجہ ہی ہے کہ ہمارا قانون اور کوئی منصوبہ کامیاب نہیں ہوتا,خود غرضی اورذاتی مفاد کی بھینٹ چھڑھ جاتا ہے.. جعفری صاحب کو میری باتوں سے با لکلیہ اتفاق تھا….وہ اپنے سینے میں درد دل مند رکھتے تھے

جسمانی طور پر ان کا دل مریض تھا لیکن روحانی طور پر وہ قلب احساس کے مالک تھے اور اس کے ساتھ دور رس نگاہ بھی رکھتے تھے ..کیا معلوم تھا کہ یہ ان سے آخری ملاقات ہے اور اب ہم کبھیہ نہ مل سکیں گے ,اور ان کی دل کش شخصیت سےہمیشہ کے لیے چھن جائے گی

جعفری صاحب سے تعلقات کا ذریعہ ماہ نامہ “ریاض” بنا جو انھوں نے سن 1953ء میں کراچی سے جاری کیا تھا ..وہ “ریاض” کو “معارف” کے طرز اور معیار کا رسالہ بنانا چاہتے تھے …”ریاض” کے سلسے میں اکثر مشورے فرماتے اور آیندہ کے پروگرام پر گفتگو ہوتی ….”ریاض” کے لیے جو انداز انھوں نے اختیا ر کیا تھا اس کا نبھانا آسان نہیں تھا ..لیکن جو شخص خود ہر موضوع پر لکھ سکتاہو اس کے لیے کیا مشکل تھی…جس عنوان کے تحت مضمون کی کمی پڑی خود لکھ لیا یا ترجمہ کر کے کاتب کے حوالے کر دیا !  ترجمہ بھی اسی روانی سے کرتے تھے جس روانی سے ناول لکھتے تھے….پھر خاص بات یہ تھی کہ ترجمے میں اپنا خصوص لہجہ برقرار رکھتے تھے…..جعفری صاحب نے کئی علمی اور تاریخی کتابوں کے ترجمے کیے ہیں.لیکن ان ترجموں میں بھی شگفتگی اور شادابی اسی طرح ہے جس طرح ان کی طبع زاد تحریروں میں ہوتی ہے

کراچی کی آب وہواسے شکایت اور “زمیندار”کی ادارت ان کو لاہور کے گئی اور “ریاض”بند ہو گیا …لیکن جعفری صاحب نے “ریاض” کے کئی دستاویزی نمبر نکال دیئے تھے ..شوکت علی نمبر اور سید سلیمان ندوی نمبر ہماری قومی اور علمی تاریخ کی ان دونوں اہم شخصیتوں پر آج بھی حولے کے کام آتے ہیں اور آتے رہیں گے… لاہور اور کراچی کے بعد مکانی کی بنا پر ملاقاتوں میں فصل پیدا ہو گیا تھا لیکن جب بھی ملتے اسی خلوص اور تپاک سے جوان کی سیرت کا جز لا ینفک تھا ……………. جب میں نے ہر ماہ لاہور جانا شروع کیا جعفری صاحب سے پھر ملاقاتیں ہونے لگیں  وہ کراچی آتے تو ایک , دو بار غریب خانے پر بھی تشریف لاتے …… جعفری صاحب کی ایک خصوصیت ان کی بے غرضی تھی ..وہ جس ملتے بے غرضی سے ملتے ..انکسار اور خوش اخلاق کے با وجود بے لوثی اور بے نیازی ان کی طبیعت میں بے حد تھی ..اپنی محنت اور لگن سے انھوں نے اتنی عمر میں اردو زبان کو کم و بیش دو سو کتابیں دیں جن میں تاریخ , تصوف, تعلیم, فلسفہ , مذہب , سوانح سے لیکر ناول افسانہ تک شامل ہیں …….جعفری صاحب اردو کے ان چند ادیبوں میں سے تھے جن کی تمام تر آمدنی کا زریعہ ان کی تحریریں ہیں اور آمدنی بھی معقول …یہ اور بات ہے کہ وہ اپنی اس معقول آمدنی کا معقول حصہ دوسروں پر خرچ کر ڈالتے تھے ….دوستوں کی خاطر مدارات, ناداروں کی مدد, غریبوں کی خدمت ان کا شعار تھا

جعفری صاحب کی ادبی زندگی کا آغاز ان کی طالب علمی کے زمانے ہی میں ہو گیا تھا ..ان کی سب پہلی “تالیف” “سیرت محمد علی” تھی جو انھوں نے جامعہ ملیہ میں تعلیم کے دوران مرتب کی …” سیرت محمد علی” اب بھی مولانا محمد علی جوہر پر اہم ترین کتاب ہے اور اکابر ملت سے خراج تحسین وصول کر چکی ہے………….  جعفری صاحب پاکستان کے پر خلوص اور سر گرم کارکنوں میں سے تھے ..اگرچہ انھوں نے عملی سیاست میں کبھی حصہ نہیں لیالیکن اپنی پر جوش تحر یروں کے زریعے پاکستان کے لیے راہ ہموار کرنے میں مصروف رہے اخبار ” خلافت” کی ادرات کے علاوہ قائد اعظم کی زندگی پر ” حیات محمد علی ” لکھ کر جعفری صاحب  نے تحریک پاکستان کے لیے

قلمی جہاد میں بھر پو حصہ لیا …” حیات محمد علی ” قائد اعظم پر سب سے پہلی کتاب ہے جعفری صاحب  کی زندگی اور ان ادبی کاموں پر لکھنے کے لیے ایک پوری کتاب درکار ہے .وہ ایک سادہ دل انسان ,ایک محب وطن پاکستانی,  ایک بلند پایہ ادیب, ایک کنہہ مشق صحافی, ایک سچے مسلمان , ایک ایک مخلص دوست , ایک شفیق باپ اور رفیق شوہر تھے …..اور ان کی یہ حیثیتیں دوستوں اور  مداحوں سے مطالبہ کرتی ہیں ?مطالبہ کیا ہے .اس کا فیصلہ دوست خود کر سکتے ہیں ———————————————————————————————————————————————————————————————————–

………اب جس کے دیکھنے کو

ابن انشاء

کیا طرفہ تماشہ تھی حسرت کی طبیعت بھی…ایسی جامعیت کہ انسان جیست ہمارے جعفری صاحب تھے..لکھنے ….پڑھنے والوں کے قبیلے میں کم ہی ہوتے ہیں لکھنے پڑھنے والوں میں بھی دو طرح کے با کمال ہوتے ہیں

ایک وہ کہ پڑھے زیادہ اور لکھے کم…..ان کا علم ان کے ساتھ چلا جاتا ہے..تھوڑا مدرسے اور ممبر کی نظر باقی …….کنجوس کے سرمائے کی طرح بے مصرف دوسرے وہ کہ پڑھے کم اور لکھے زیادہ ہوتے ہیں…اس ذیل میں کس کس کا نام لیجیے کہ یہ فہرست سلسلہ در سلسلہ ہے.اس کی نہایت نہیں ہے اور اسمیں 

کہیں نہ کہیں ہمارا نام بھی ہوگا

Back To Top