سفر نامہ ابن بطوطہ (سید رئیس احمد جعفری)
سفرنامہ ابن بطوُطہ (حصہ اوّل)
سفؔرناٰمَہ علمی و ادبی اعتبار سے بڑی اہمیت رکھتا ہے، یہ واحد صنف ادب ہے جس کا تقریَبا تمام اہم معَا شرتی علوم سے گہرا تعلق ہے ، سوانح نگاروں اور جغرافیہ دانوں نے اس صنف سے بہت فائدہ اٹھایا ہے۔اور اسی وجہ سے دنیا کی تمام بڑی چھوٹی زبانوں کے ادبیات میں سفرناموں کو ایک اہم مقام حاصل ہے۔ابنِ بطوٗطؔہ نے جب اپنے سفر کا آغاز کیا تو اس وقت نہ ریل تھی ، نہ موٹر، نہ طیارے ، نہ کل کے جہاز ، جب سمندر کا سفر کرنا جان جو کھوں کا کام تھا ، برابر کا ایک منچلا نوجوان ۔۔۔ابن بطوطہ ۔۔۔ رخت سفر باندھ کر اٹھا، اور کامل پچیس 25 سال تک سمندر کی لہروں سے لڑتا ، ہولناک ریگستانوں سے گزرتا پر شور دریا ؤں کو کھنگالتا، فلک رفعت پہاڑو ں پر چرھتا ہوا جنگلوں اور بیانوں اور برفستا نوں کو قطع کرتا ، اپنے ذوق سیؔا حت کو تسکین پہونچاتا رہا۔۔
ابن بطوطہ کا تعارف
٭ابن بطوطہ مغربِ اقصیٰ کا رہنے والا تھا ،
٭علوم اسلامیہ کی اس نے باقاعدہ تعلیم حَاصل کی تھی ، خاص طور پر تفسیر حدیث اور فقہ کے علوم میں اسے اچھی دستگارہ حاَصل تھی۔
٭وہ امام مالک رحمتہ اللّٰہ علیہ کی فقہ پر عمل تھا، فقہ حنفی کا مقلّد نہ تھا اور فقہ مالکی ، اکثر سَاحلی مقامات پر رایعج ہے ، امذس میں تو اموی خلیفہ نے اسے ایک فرمان کے ذریعے بہ حکم نافذ کیا تھا ۔
٭تصوفّ آشانہ بھی تھا ،اہل اللّٰہ کی صحبت بھی اٹھائی تھی ، زیارت بھی کی تھی مزارات و مقابر کے لیے شد رحال اور ان سے حصول برکات کا قائل تھا ۔، اس کا غلو ضعیف الا عتقادی کی حد تک پہنچ جَاتا ہے ،
٭ دورانِ سیاحت میں کئ مقامات پر متعدد مرتبہ منصب قضا ء پر فائز ہوا اور جراؑت و بیبا کی کے سَاتھ احکام شرعیہ نافذ کرتا،
سفرنامہ ابن بطوطہ کے خصوصیات
٭ دنیا کی کوئی ترقی یافتہ ایسی زبان ایسی نہیں جس میں اس کتاب کا ترجمہ نہ ہوا ہو۔
٭ مشرقی اور ایشیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں اس منچلے سیّاح کےقدم نہ پہنچے ہوں ،
٭سر زمین مغرب کے بعض مقامات کی بھی ابن بطوطہ نے سیاحت کی ،
٭اور پھر اپنے تاثرات و مشاہدات سفر ، پوری سچائی اور بے باکی اور جراؑت کے ساتھ قلم بند کر دئیے ۔۔
سفرنامہ ابن بطوطہ کے لٹریری خصوؔصیات
٭یہ سفر نامہ ابن بطوطہ نے اپنی مادری زبان یعنی عربی میں تحریر کیا ۔ اس کی عربی ،صحیح معنی میں ،،عربی مبین ،، ہے اتنی رواں ،اتنی سادہ ، اتنی شگفتہ کہ بس
وہ کہے اور سنا کر لے کوئی
٭دورانِ سفر میں وہ یاداشتن مرتب کرتا رہا ، 25 سال کے بعد وطن پہنچا اور پھر گوشہ عافیت میں بیٹھ کر ان یاداشتوں کی مدد سے سفر نامہ پایہ تکمیل تک پہنچایا، کہیں کہیں بھول چوک یا غلط فہمی یا التباس تقاضائے بشری ہے، لیکن اس کے حافظہ کی داد دینی چاہیئے کہ اس نے جو کچھ لکھا بڑی کوتاہیوں سے پاک ہے۔
٭وہ بادشاہوں سے بھی ملا اور وزیروں سے بھی ، ابن خلیفۃ المسلمین سے بھی، اور امرائے عرب و عجم سے بھی ، اہل علم سے بھی ،اور اہل اصحاب سیف سے بھی، سب کے بارے میں اس نے اظہار ِ رائے کیا، بڑے بے لاگ انداز میں ۔۔۔۔۔۔ جو دل میں وہ زبان پر۔
٭ اور خود اپنے کو بھی نہیں چھوڑا ہے، حد یہ ہے کہ حیاتِ عیش و نشاط کی داستانِ شبینہ بھی بیان کرنے میں اس نے کوئی تکلف ّنہیں کیا ہے۔