skip to Main Content
تغلق (سید رئیس احمد جعفری)

تغلق (سید رئیس احمد جعفری)

ایک طوفان

ایک انقلاب

ایک سیل گراں

ایک نا قابل تسخیر قوت بن کر نمودار ہوا ِ

یہ ناول اسی طوفان بدوش ، انقلاب انگیز اور ناقابل فراموش عہد کی ایک ایمان افروز اور حیریت پر ور داستان ہے

کیا چیز  ہے یہ دنیابھی!

            یہاں ہر روز ان گنت آدمی پیدا ہوتے ہیں اور مرتےہیں ، زوال سے ہمکنار ہوتےہیں اور عروج  کے منازل طے کرتے ہیں۔ بادشاہوں کے سر سے تاج شہریاری چھن جاتا ہے، فقیر راہ کے قدم تخت خسروی پر پہنچ جاتا ہے ، دنیا میں اسی طرح کےواقعات ہوتے ہی رہتےہیں ،لیکن جب ایسا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو دنیا دالے یوں چونک اٹھتے ہیں جیسے بالکل نیا اور پہلا واقعہ ہے!

            یہ خستہ حال لوگ ، یہ معمولی سےآدمی ،یہ تھوڑی تنخواہ پانے والے سپاہی،یہ مجبور، یہ مظلوم،، جو مرتےہیں آرزو میں مرنے کی،، ایک دن ایساآتا ہے کہ انہی میں سے کوئی ، سب کو پیچھےدھکیل کر آگے برھتا اور اپنے لئے سب سے اونچی جگہ پیدا کر لیتا ہے!

 شہسوار دوراں

                دلی  نہ جانے کتنی مرتبہ  لٹی اور بنی، اجڑی، اور بسی، اینٹ سے اینٹ بج گئی اس کی اور پھر وہیں محل کھڑے ہو گئے۔ اس کی گلیوں اور کوچوں میں پانی کی طرھ انسانی خون بہا، گھروں میں صف ماتم بچھ گئی، پشتوں کے پشتے لگ گئے اور پھر چند ہی روز میں شہنائیاں بجنے لگیں، عیش و نشاط کی محفلیں بر پا ہونے لگیں ساغر کھنکنے لگے۔ بادہ ناب کا دور چلنے لگا۔ یہاں کے آسمان نے بادشاہوں کو بھیک مانگتے اور شہزادوں کو چھترڑ لگائے دیکھا اور اسی آسمان نے یہاں فقیروں کو شہریار بنتے اور خستہ حالوں کو شہزادوں کی طرح زندگی بسر کرتے بھی دیکھا!

            دلی کی سڑکوں پر، چوراہوں ہر، خلقت کا انبوہ جمع ہے۔ جدھر جائیے آدمیوں کا ایک  سمند  ر نظر آئے گا، جہاں قدم رکھیے آدمی ہی آدمی دکھائی دیں گے۔

سلطان علاؤالدین خلجی کے عہد حکومت میں اس طرح کی آزادی اجتماعی ایک غیر معمولی سی بات تھی، لیکن آج  غیر معمولی سی بات  میں خود سلطان علاؤالدین خلجی جیسا وقت کا سکندر اعظم بھی شریک تھا۔ وہ اپنے مصاحبوں ، ندیموں م افسروں اور وزیروں کے ساتھ  شہر باہر نکل کر آنے والے لشکر کا انتظار کر رہا ہے۔

Back To Top