یہ کتاب اب سے شاید بہت پہلے قارئین کے ہاتھوں میں ہوتی ، اس کا بڑ احصہ لکھا جا چکا تھا۔ کچھ باقی تھا کہ 4 مارچ 1957 کو مجھ پر قلبی حملہ (کاردنری تھرا ہوسس) ہوا ، کرنل ضیاء اللہ نے مجھے فوراً گنگا رام ہسپتال میں داخل کر لیا، پندرہ،بیس دن بعد وہاں سے گھرآ گیا، ابھی چلنے پھرنے کی اجازت نہیں ملی تھی لیکن بظاہر صحت کی طرف عود کر رہا تھاکہ پکا یک 4 مئی 1957 کو دوبارہ نہایت شدت کے ساتھ یہ حملہ ہوا۔ کرنل ضیاء اللہ کو اطلاع ملتےہی تشریف لائے اور جو کچھ ایک ڈاکٹر یا انسان کےبس میں ہے وہ سب کچھ کیا، بظاہر بچنے کی کوئی امید نہیں تھی، لیکن خدا کو شاید میری رفیقہ حیات کی چشم خون فشاں اور چھوٹی چھوٹی بچیوں کے گریہ ظاہر بے اختیار پر رحم آگیا۔ اس روز مجھے اندازہ ہوا کہ ہوش و حواس کے عالم میں آدمی جب اپنی بیوی پچوں کے سامنے دنیا سے گزرتا ہو تو اس پر کیا گزرتی ہو گی؟ بہر حال خدا کا شکر ہے کہ کرنل ضیاء اللہ کی مسیحا نفسی سے میں بچ گیا۔ لیکن تقریبًا چار ماہ تک بستر سے ہل نہ سکا ۔ ڈاکٹر اسلم پیر زادہ صاحب اور پروفیسر معالجات ایڈورڈ میڈیکل کالج بھی دو مرتبہ تشریف لائےاوربرابران کی توجہ ، عنایت اور طبی مشورے مجھ نیم جان میں ایک نئی جان زندگی پیدا کرنے کے موجب ہوئے ، جناب حکیم محمد سعید صاحب(مالک ہمدرد دواخانہ) بھی ازراہ کرم عیادت کے لیے تشریف لائے ، ان کے قیمتی مشوروں اور قیمتی دواؤں کے تحفہ نے بھی مجھے بڑا سہارا دیا ، سمجھ میں نہیں آتا، ان حضرات کا شکریہ کس زبان سے دا کروں۔
خاموشی ازثناءے تو حد ثناء تست
اس کتاب کو پورا معاوضہ اسے لکھنے سے پہلے میں وصول کر چکا تھا، پھر بیماری کے سبب ایک عرصہ تک کام رکارہا۔ لیکن شیخ نیاز احمد صاحب(پروپرائیٹر میسرز غلام علی اینڈ سنز) نے ایک مرتبہ بھی مجھ سے تقاضا نہیں کیا۔ بلکہ جب ملاقات ہوئی تو آرام کی ہدایت کرتے رہے، ان کی اس کرم فرمائی کا بھی دل سے سپاس گذار ہوں اور خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ آج اس بوجھ سے سبکدوش ہو رہا ہوں۔ بیماری کے یہ سات آٹھ مہینے بڑے صبر آزما گذرے ، اس مدت میں یگانوں اور بیگانوں کا، دوستوں اور عزیزوں کا ، واقف کاروں اور شناساؤں کا، قدر دانوں اور جانثاروں کا، نیاز مندوں اور کرم فرماؤں کا، سب کا تجربہ ہو گیا اور خدا سے دعا کرتا ہوں کہ ا ب مجھے اس تجربہ سے کبھی دو چار نہ ہونا پڑے۔
جفائیں دیکھ لیاں، کج ادائیاں دیکھیں بھلا ہوا کہ تری سب برائیاں دیکھیں
واجد علی شاہ کے خامہ بہار آفریں سے بہت سی کتابیں نکلی ہیں ۔ لیکن ان میں “بنی” کو اختصاص و امتیاز خاص ہے ، یہ کتاب ایک کشکول کی حیثیت رکھتی ہے۔ کئی سو صفحات پر حاوی ہے، اس میں انہوں نے اپنے آپ کو ، بے نقاب کر دیا ہے ، یہ ایک صاف اور روشن آئینہ ہے جس کے سامنےوہ آکر بیٹھ گئے ہیں۔ انہوں نے فن کی باتیں بھی کی ہے ، اشخاص و افراد کے بارے میں اظہار خیال بھی کیا ہے۔ اپنے تاثرات و واردات بھی بیان کئے ہیں۔ آپ بیتی کے نقوش بھی کہیں کہیں ملتے ہیںَ جگ بیتی کی جھلک بھی ہے۔ غیر محسوس طور پر ، لیکن وضاحت کے ساتھ ، انہوں نے اپنے نفسیات پر سے پردہ اٹھایا ہے ، جہاں وہ محل کی رہنےوالیوں کو ، آداب حیات بتاتے ہیں۔ وی انکی نفسیات دانی کا بہترین نمونہ ہے، اس کتاب میں نقلیں بھی ہیں۔ حکایتیں بھی داستانیں بھی ، واقعات و حقائق بھی ، کئی سو صفحوں میں پھیلی ہوئی اس کتاب کے بعض حصوں کو اختصار کے ساتھ میں ذیل میں درج کرتا ہوں۔ تاکہ واجد علی شاہ کے کردار و گفتار کا ایک دلچسپ اور دل نشین و دل آویز مرقع خود انہی کے ہاتھوں کا لکھا ہوا نظر آجائے۔