نہج البلاغہ
نہج البلاغۃ
(سید رئیس احمد جعفری)
شذرات
یہ امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خطبات ار کلمات (نہج البلاغۃ) کا ترجمہ!۔۔۔ نہج البلاغۃ ، عربی ادب اور لٹریچر کا بہت ہی گراں سرمایہ ہے ، فصاحت و بلاغت ، زور و بیان اور شان کلام معنی آفرینی اور نکتہ سخی ، حق کا اثبات اور باطل کی تردید ، راستی کا پکار اور کذب و دروغ کی نہی، سچ کا اظہار اور جھوٹ سے پیکار۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہے ان خطبات کا موضوع۔۔۔۔
مختصراً اگر اس کتاب کے خصوصیات بیان کرنا تو ہم کہہ سکتے ہیں:
1) خطبات کا یہ مجموعہ فصاحت وبلاغت اور روانی کلام کے اعتبار سے اپنا جواب نہیں رکھتا۔
2) ان خطبات میں فسلفہ بھی ہے اور منطق بھی، تاریخ بھی، اور حقائق ومعارف بھی۔۔۔۔۔۔ وہ حقائق صرف آنکھوں سے دیکھے جا سکتے ہیں۔ وہ معارف جو صرف دل کے کانوں سے سنے جا سکتے ہیں۔
3) خدا کی یکتائی پر جو محکم دلیلیں اس کتاب میں ملیں گی وہ کہیں اور نہیں ملے سکتیںَ جس طرح قرآن حکیم میں خدا کی معرفت کے لئے چھوٹی چھوٹی اور بڑی بڑی چیزوں کی طرف متوجہ کیا گیا ہے اسی طرح ان خطبات کے خطیب نے ان چھوٹی چھوٹی اور بڑی بڑی چیزوں کی سبق آموزی کو اتنا واضح کر دیا ہے کہ بات دل میں اتر جاتی ہے۔ پھر کسی قسم کا وسوسہ اور اندیشہ باقی نہیں رہ جاتا۔ خدا کی یکتائی پر اعتقاد جم جاتا ہے اور یقین محکم حاصل ہو جاتا ہے جسے دنیا کا کوئی وسوسہ متزلزل نہیں کر سکتا۔
4) رسول خدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ذات گرامی ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مقدس ، آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا کردار ، آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شخصیت ، آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے صفات ، آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اخلاق ، آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے عادات و خصائل ، آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی گفتار و کردارکی جتنی واضح تصویر کشی ان خطبات میں ملے گی ۔کہیں اور نہیں مل سکتی۔ اس لئے یہ بیان اس شخص کا ہے جس نے ہوش کی آنکھیں آغوش ِ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں کھولیں اور جس کے دست و سینہ پر سرور عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے زندگی کی آخری سانس لی ، جو فخر موجودات کا رفیق خلوت و جلوت تھا۔ جو صرف ایک معتقد اور مومن ہی نہیں تھا ،بھائی بھی تھا، خویش بھی تھا۔ جس نے اپنی زندگی کا مقصد صرف یہ قرار دیا تھا کہ اسے سرور کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر نثار کر دے۔ جس نے جنگ کےمیدان میں گھر میں ، مسجد میں ، ہجرت سے پہلے ، ہجرت کے زمانے میں اور ہجرت کے بعد ، دعوت اسلام شروع ہونے سے پہلے ، دعوت اسلام شروع ہونے کے زمانے میں اور اسلام کے پھیل جانے کے بعد ، جس نے مکہ کی بے سرو سامان زندگی میں ، مدینہ کی مطمئن اور یکسوزندگی میں ، پھر فتھ مکہ کے بعد ، حاکمیت کے دور میں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو دیکھا تھا۔ ان کے ساتھ رہا تھا۔ اس رفاقت کو ہر حالت میں بنایا تھا۔ ، کڑیاں جھیل کر دکھ اٹھا کر، مصیبتیں سہ کر ، خطرات کا مقابلہ کرکے ، تلوار کے سائے میں ۔۔۔۔۔۔ کیا ایسے شخص سے بڑھ کربھی کوئی حق رکھتا ہے کہ وہ سیرت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر حرف آخر کہہ سکے۔ ؎
5) قرآن کریم کی عظمت و شان ، جبروت و جلالت کا ، صداقت اور معنویت کا جیسا پر شکور بیان ، ان خطبات میں ملے گا ، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ یہ خطبات بتاتے ہیں کہ جو شخص قرآن کریم کی تلاوت نہ کرے۔ قرآن پر فکر و تدبر نہ کرے اس کے اپنا راہ نما نہ بنائے ۔ کیونکہ وہ خود ہی نجات نہیں حاصل کرسکتا ، کہیں ضمنا اصل موضور بنا کر بار بار جناب مرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قرآن پڑھنے ، اس پر غور کرنے اور اس پر عمل کرنے کی تلقین کی ہے ان خطبات کے پڑھنے سے صاف طور پر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن ہی اصل اسلام ہے، پس سچا اور کھرا مسلمان وہی ہے جو قرآن کے سر رشتہ کو کسی حالت میں بھی ہاتھ سے نہ چھوڑے، جو ہر معاملہ قرآن کی ہدایت و رہنمائی کا طالب ہو ، جو ہر مشکل کو حل قرآن ہی سے ٖڈھونڈھے، جو ہر مصیبت میں صرف قرآن ہی کے وسیکے سے ، مداوا تلاش کرے!
6) ان خطبات میں اہل بیت اطہات کا بھی ذکر ہے، اور اس طرح ہے ،جس طرھ ہونا چاہیے، اہل بیت کو جو فضیلت اور مزیت حاصل تھی ورہ ایک ایسی حقیقیت ہے جس سے انکات کسی طرح ممکن ہی نہیں ۔، آفتاب آمد دلیل آفتاب
7) امیر المؤمنین کے خطبات میں بار بار کثرت اور تواتر کے ساتھ ، بکرّات و مرّات جس چیز پر زور دیا گیا وہ ہے تقویٰ ۔۔۔۔مشکل ہی سے کوئی ایسا خطبہ ہوگا جس میں تقویٰ کی نصیحت ار تلقین نہ کی گئی ہو۔
8) مختلف قرآنی آیات کی تفسیر بھی بڑے دلکش اور سبق آموز الفاظ میں ملے گی ۔ یہ تفسیر بجا ئے خو د تفسیر بھی ہے اور پند و اندند بھی۔
9) اپنے ہمرہان سست گام پر امیر المومنین نے واضح اور واشگاف الفاظ میں نکتہ چینی فرمائی ہے ، ان پرملامت بھی کی، ان کی غفلت اور خود فراموشی پر قدح بھی کی ہے اور انہیں ان کے کردار زشت پر سرزنش اور توبیخ بھی فرمائی ہے۔
10) خوارج کا طبقہ ، امیر المؤمنین ہی کے زمانے میں پیدا ہوا تھا۔ اس طبقہ نے بہت جلد ایک بہت بڑے ار خطرناک فتنہ کی صورت اختیار کر لی تھی ۔ اگر اسے پھلنے اور پھولنے اور پروان چڑھنے کا وقت ملتا تو شاید آج ملت اسلامیہ کی تاریخ کچھ اور ہوتی۔، امیر المؤمنین نے اس گمراہ فرقہ سے جہاد بھی کیا اور اس کے خیالات و اباطیل کی باولہ و اضحہ وساطعہ تردید بھی فرمائی اور اتمام حجت کرتےہوئے بار بار اس کے سامنے حق بھی پیش کیا، خوارج سے متعلق جو خطبات یا کلمات ملیں گے وہ اپنی اثر آفرینی اور حجیت کے اعتبار سے خاص چیز ہیں۔