skip to Main Content
(دید وشنید (رئیس احمد جعفری

(دید وشنید (رئیس احمد جعفری

(دید وشنید (رئیس احمد جعفری 

دیباچہ 

رئیس احمد جعفری علم و ادب کے خارزار کے بے تکان راہی تھے ۔اُردوادب میں ان جیسے کثیرالتحریر بزرگ انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں ـ پھر ان کی تحریروں کا تنو ع بھی حیران کُن ہے۔سوانح نگاری،شخصیہ نگاری،ترجمہ،ناول اقبالیات اور متعدد دیگر موضوعات پر ان کا قلم رواں رہا۔ سترہ اٹھارہ سال کی عمر میں انہوں نے اپنی پہلی باضابطہ تصنیف “سیرتِ محمد علی” کے ذریعے عبدالماجد دریا بادی جیسے ادیبِ شہیم کو حیرت زدہ کردیا اور اس کے بعد تو وہ شاہراہِ ادب پر اس طرح رواں ہوئے کہ اُنہیں اپنے نقوش کفِ پاکو دیکھنے کی فرصت بھی کم ہی مل پائی۔۔۔۔!

“دیدوشنید” میں جعفری صاحب نے ایک سو آٹھ شخصیتوں کے طویل و مختصر خاکے لکھے ہیں – ان خاکوں مین بھی حیرت انگیز تنوع نظر آتا ہے ــ ان میں مجاہدین صف شکن بھی ہیں اور ان کے دوش بدوش علماءکرام ، صوفیہ عظام اور رہنمایانِ ملت بھی ہیں یہیں کانگریس کے عبد اور مبعود بھی مل جائیں گے ــ کمیونسٹ پارٹی کے رہنما بھی اپنا رجز بلند کرتے ہوئےسُنے جاسکیں گے ، ارباب قانون و تعلیمات بھی قانون اور علم کی گتھیاں سُلجھاتے نظرآئیں گے۔ ادیب اور شاعر بھی مجلس آرا ملیں گے حکمائے حازق ، سفرائےممالکِ غیر اور امرائے ذی وقار اپنی خداقت ، سفارت اور امارت کے جوہر دکھاتے ہوئے نظر پڑیں گےاور یہیں کچھ کھلنڈرے اور کچھ دخترا ملت اپنے الگ الگ دائروں میں سامانِ صد نشاط کرتے اور عبرت زائی کرتے دکھائی دیں گے ــ اشخاص و افراد کے اس منضبط ہجوم میں قاری  کہیں گم نہیں ہوتا بلکہ ایک نئی پہچان سے بہرہ ور ہوتا ہے۔

“دیدوشنید ” میں رئیس احمد جعفری نے یا تو صرف اُنھیں شخصیات کو شامل کیا ہے جو برِصغیر میں کوئی نمایاں اور ممتاز حیثیت رکھتی تھیں یا پھر ان لوگوں کو جو بوجوہ اتنے معروف و مشہور تو نہیں تھے لیکن سیرت و شخصیات کے اعتبار سے عظیم لوگوں میں شمار کیے جانے کے لائق تھے یا جنھوں نے ایسی زندگی اختیار کر رکھی تھی جو لوگوں کے نزدیک قابلِ اعتنا تھیــ گویا مصنّف کے پیشِ نظر محض چند شخصیات کو ایک مخصوص شگفتہ یا مزاحیہ لہجے میں پیش کرکے گرمی مَحفلِ کا سامان کرنا مقصود نہ تھا بلکہ ان شخصّیات کے حوالے سے اعلیٰ انسانی اقدار اور فضائل و فیوض کو عام کرنا مقصود تھا۔

چنانچہ زیرِ نظر اوراق میں سادگی،بے نفسی،بوریانشینی، دیاتنداری ،اسلامیت ، للہیت، شائستگی  ، منفرد خیالی ، ایمان ،آگہی ، استقلال ، پامردی ،علم ، ہمت، تدبر، توازن اور فکر و فرازنگی کی ارفع اقدار ، وقائع اور یاداشتوں کے سیاق و سباق میں اس خوبی سے اجاگر ہوتی ہیں کہ ان اقدار کے حامل بزرگوں سے ملنے ، معانقہ کرنے اور صفاتِ ثابتہ کو اپنانے  اور اپنی شخصیت کو حصہ بنا لینے کو جی چاہتا ہے۔ پھر انہیں اوراق میں حیرت ، عبرت اور آشوب کے منظر ناموں  کی بھی کمی نہیں۔ ان میں ایسی شخصیات کا بھی  تذکرہ ہے جو ہلال کی صورت افق آگہی پر جلوہ گر ہوئے تھے لیکن اعلیٰ اقدا ر پر مسلسل عمل اور عظیم مقاصد کی مسلسل پاسداری کے باعث جلد ہی بدر کامل بن گئے اور ایسے لوگ بھی ہیں جو ماہِ چہاردہم تھے  یا سمجھے جاتے تھے۔ لیکن امتحان اور آزمائش کی ایک آنچ کی تاب بھی نہ لاسکے اور بالآخر ان کی شخصیت کا ہیداہ ہو کر ایک ایسی قوس اور کمان میں بدل گئی جس کی قسمت میں دائرہ بننا نہیں ہوتا۔

رئیس احمد جعفری کی ا پنی شخصیات چونکہ بالیدہ و بزرگ تھی اس لئے زیر نظر شخصیات میں سے کسی ایک کے بیان  میں بھی ان کی اپنی شخصیت کے دبتی نظر نہیں آئی۔ انہوں نے بڑے اعتماد اور پوری صاف گوئی  سے شخصیات کے ضمن میں اپنے تاثرات رقم کیے ہیں ۔ اور کہیں اپنے قلم کو موچ نہیں آنے دی۔، ان اوراق میں ایسے مواقع بھی آئے نہیں جہاں جعفری صاحب شخصیت زیر بحث کے قائل ہو کر اس کے بارے میں اپنے پہلے قائم کردہ تاثر سے دستبردار ہوتے نظر آتے ہیں۔ لیکن وہ شخصیت زیر نظر کے بارے میں  اپنے سابقہ  تاثر کو بے کم و کاست رقم کرنے سے ہر گز نہیں ہچکچاتے ۔ اس سے شخصیات کے ضمن  میں خود ان کے ہاں ایک تدریج کا پتا چلتا ہے اور اندازہ ہوتا ہے کہ رئیس احمد جعفری کی شخصت میں لچک اور توازن کا بہرہ وافر تھا۔ چنانچہ وہ ابوا لکلام آزاد ہوں یا مولانا اشرف علی تھانوی ،خالدہ ادیب خانم ہوں یا سید ابو الاعلیٰ مودودی، رئیس احمد جعفری  ان کے بارے میں اپنے سابقہ تاثرات یا اندیشے رقم کرنے میں ہر گز نہیں ہچکچاتے۔

رئیس  احمد جعفری صاحب قاری کو تخاطب کے ذریعے دھیرے دھیرے  حکیم صاحب کے مطب کے ماحول سے متعارف کرتے ہیں۔

” آپ نے شاید حکیم صاحب کو نہ دیکھا ہو ، دیکھ لیجیئے ، آپ ایک شاندار  مکان میں داخل ہوئے ، یہیں حکیم صاحب کا دار الشفا ہے۔یہ سامنے  وسیع صحن ہے۔ بہت سی کرسیاں اور بنچیں پڑی ہیں۔ بیچ میں ایک تخت ہے ۔ اس پر دری بچھی ہے۔ اس پر قالین بچھا ہے۔ گا ؤ تکیہ لگا ہوا ہے۔ برے سلیقے  اور قرینے سے قلم ، دوات، کاغذ رکھا ہے۔ اتنے میں اندر سے ایک شاندار لحیم  شحیم ہستی برآمد ہوئی ۔۔۔۔الخ”

رئیس احمد جعفری کی خاکہ نگاری کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ شخصیات زیر نظر کے ناموں کے تحت مختصرمگر جچے تلے الفاظ پر مشتمل  ذیلی سرخیاں بھی قائم کرتے جاتے ہیں۔ یہ ذیلی سرخیاں نثر میں یا کسی استاد  کے مشہور مصرعے پر مشتمل ہوتی ہیں۔ اور ان میں بعض اوقات زیر بحث شخصیت کا جوہر کھینچ آتا ہے۔ مثلاً مفتی اعظم سید امین الحسینی  کے نام کے تحت ان کے خوبصورت  چہرے ، پر کشش آنکھوں ، گورے رنگ اور بے داغ کردار کے ناتے سے اقبال کے مشہور مصرعے “یانمایاں بام گردوں سے جبین جبرئیل” کی سرخی جمانا ، ٹیونس کے مشہور مجاہد اور فرانسیسی استعمار کے بہت بڑے باغی علامہ ثعلبی کے ذکر میں “دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان” جیسی سرخی کا اندراج ، مسز سروجنی نائیڈو کے روز بروز زوال آثار حسن و جمال کے پیش نظر ” ہوگئے  خاک انتہا یہ ہے”۔۔۔۔۔۔۔۔

رئیس احمد جعفری نے ان خاکوں میں متعدد ایسی شخصیات کو بھی جگہ دی ہے جنہیں علم و ادب فراموش کرتی جارہی تھی، چنانچہ عبد الرؤف عشرت ، حکیم احمد علی اور حکیم کبیر الدین  جیسے اہم لوگوں کو پردہ خفا سے یا ان کے مخصوص حلقہ ہائے  تعارف سے نکال کر جعفری صاحب نے ان کا ذکر اس چاہت ،اپنائیت اور خلوص سے کیا ہے اور انہیں ادب کے ایسے وسیع میدان میں لے آئے ہیں کہ ان کی بازیافت خارج از مکان نہیں رہتی۔

رئیس احمد جعفری کا قلم تمام عمر اسلام اور خدمت اسلام کے لئے وقف رہا۔۔۔

جوش پر لکھتے ہوئے  جعفری صاحب نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ انہوں نے کبھی حمد و  نعت کا کوئی شعر نہیں کہا۔ یہ بات درست نہیں۔ ان کے ابتدائی مجموعوں خصوصاً ” شعلہ و شبنم  ” میں ایسے اشعار مل جاتے ہیں ۔ جوش صاحب  کے یہاں الحاد کی کمانی تو ابتدائی  دو تین مجوعوں کی اشاعت کے بعد کھلتی ہیں چلی گئی، آخر عمر میں اپنی اصل کی طرف  پلٹنے اور سورہ رحمن کا جو منظوم ترجمہ انہوں نے کیا وہ ان کے حسنات میں یقینا اضافے کا سبب بنے گا۔

جعفری صاحب کے زیر نظر خاکے  کے مختلف شخصیات کےہمہ گیر تنوع کے ساتھ رقم ہوئے ہیں ۔ ان خاکوں سے جہاں شخصیات زیر قلم کے مزاج ، میلان ،رویوں  اور نظریوں کی وضاحت ہوتی ہے وہیں خود روح ِعصر کے ساتھ رئیس کے انسلاک کا بھی پتہ چلتا ہے ۔ رہا ان خاکوں میں حقائق  کی تصدیق کا مسئلہ تو حقیقت یہ ہے کہ متعدد  معاصر اور بعد کے خاکہ نگاروں ، سوانح نگاروں  اور شخصیہ نگاروں نے بہت سی انہیں شخصیتوں پر لکھا ہے جن رئیس نے قلم اٹھایا اور ان کے بیان  کردہ  حقائق و واقعات ، رئیس کے بیان کردہ حقائق و واقعات کی تصدیق کرتے ہیں۔ یہ حقائق  و واقعات نشاط خیز بھی ہیں اور عبرت انگیز بھی ، ان اوراق میں بعض اکابر  اور اعاظم کے احوال  پڑھ کر میں نے باربار اپنے آپ سے پوچھا، کیا میں ایسا بن سکتا ہوں؟

دید و شنید ایک ایسی کتاب جو کئی اہم شخصیات کا شخصی مجموعہ ہے ۔ اور یہ شخصی مجموعہ سید رئیس احمد جعفری ندوی نے اُن تمام شخصیات کو دیکھنے کے بعد ،اُن سے ملاقات کرنے کے بعد، اور اُن کو پرکھنے کے بعد اپنے قلمِ خاص سے تر تیب دیا۔

اور اس کتاب میں ْمجاہدین صف شکن   ْ  میں سے سید امین الحسینی مفتی اعظم ،علامہ ثعلبی،علامی موسیٰ،

اور  ْ علمائے کرامْ میں سے مولانا ابو الکلام آزاد ، مولانا ابو الاعلیٰ مودودی ، مولانا شبیر رؤاحمد عثمانی ،مولانا خواجہ کمال الدین ،

اور  صوفیائے عظام ْ میں سے خواجہ حسن نظامی،مولانا عین القضاۃ،مولانا اشرف علی ،

اور  رہنمایانِ ملّت میں سے قائدِاعظم محمد علی جناح ،لیاقت علی خان،سر سکندر حیات ،ظفر علی خان،

اور  گانگرس کے عبد ومعبود میں سے مسٹر آصف ،مسٹر یٰسین نوری، ڈاکٹر سید محمود،جواہر لال نہرو،مسٹر کاندھی۔

اور  کمیونسٹ پارٹی کے رہنما میں سے داکٹر اشرف پورن چند جوش،سید سجاد ظہیر ،

اور اربابِ  آئین و قانون  میں سے  آصف فیضی ،حسن امام ،علی امام،

 اور  ماہرینِ تعلیمات میں سے سر راس مسعود ،سر رفیع الدین ،ڈاکٹر ضیا ء الدین ،پروفیسر محمد مجیب،

اور  اصحاب ِ ادب میں سے احمد شاہ بخاری ،رشید احمد صدیقی مولوی عبد الحق مولوی نورالحسن نیّر،

اور  شعرائے عصر میں سے  علامہ اقبال ،اختر  شیرانی ،جگر مراد آبادی ،اور حفیظ جالند ھری جیسی عظیم شخصیات سر فہرست ہیں۔

اور دیگر اکابرین بھی شامل ِ کتاب ہیں ۔

آپ اس کتاب کا ضرور مطالعہ  فرمائیں اور اپنی قیمتی آراء اور قیمتی مشوروں سے آراستہ فرمائیں  ۔

for Downloading Par-1 Click Here
دید و شنید part-1

Back To Top